خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
تحریر کیا تھا کہ: ’’مکہ شہر کی آبادی منیٰ کے علاوہ حدودِ عرفات تک پہنچ گئی ہے، اور حکومت بھی ان جگہوں کو ایک آبادی شمار کرتی ہے‘‘۔ شیخ کے الفاظ یہ ہیں: الذي یظہر لنا أن منیٰ أصبحت الیوم جزئً من مدینۃ مکۃ بعد أن اکتنفہا بنیان مکۃ وتجاوزہا إلی حدود عرفۃ، وبنائً علی ہٰذا، فإنہا قد أصبحت الیوم من أحیاء مدینۃ مکۃ، فلایعد الذاہب إلیہا من مکۃ مسافراً … الخ۔ إن حکومۃ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ تعد منی من مکۃ علی اعتبار أنہا حي من أحیاء ہا۔ (بحوالہ: رسالہ حج میں قصر واتمام کی تحقیق ۱۳۳، شیخ موصوف کی پوری تحریر ملاحظہ کریں: انوار مناسک ۶۸۱، مؤلفہ: مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی) ترجمہ:- یہ بات ہمارے سامنے ظاہر ہے کہ آج کل منیٰ شہر مکہ کا ایک جزو بن چکا ہے، یہاں تک کہ مکہ کی عمارتیں نہ صرف یہ کہ اس کے پہلو تک پہنچ چکی ہیں؛ بلکہ حدودِ عرفات تک مل گئی ہیں، بریں بناء منیٰ آج کل شہر مکہ کے محلوں میں سے ایک ہے؛ لہٰذا مکہ سے منیٰ کی طرف جانے والا شخص مسافر نہ ہوگا۔ (اور شیخ موصوف آگے حکومت سعودیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ) سعودی حکومت منیٰ کو مکہ میں شامل مانتی ہے، یہ اعتبار کرتے ہوئے کہ وہ مکہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے۔ایک عالم محقق کی تحقیق (۴) عرب کے ایک محقق عالم ڈاکٹر عبد اللہ نذیر احمد عبدالرحمن جو جدہ کے ’’ملک عبد العزیز یونیورسٹی‘‘ کے معاون استاذ ہیں، اور جنہوں نے علامہ ابن الضیاء المکی الحنفی المتوفی ۸۵۴ھ کی جامع ترین کتاب ’’البحر العمیق فی مناسک المعتمر والحجاج الی بیت اللہ العتیق‘‘ کی ۵؍جلدوں میں تعلیق وتحقیق اور اشاعت کا عظیم علمی کارنامہ انجام دیا ہے، وہ اس موضوع پر اپنی رائے اس طرح ظاہر کرتے ہیں: فان منیٰ الاٰن اصبحت من ضمن مکۃ المکرمۃ، لتوسع البناء والعمران، وامتدادہا إلیہا، ومن ثم اختلف الحکم باختلاف العلۃ، اذ الحکم یدور مع العلۃ