خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
دے دے تو اس کے ذریعہ لڑکے کو چھڑاسکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں ذکر کردہ واقعہ اگر صحیح ہو تو ایسے محتاج اور غریب شخص کو زکوٰۃ اور بینک کی سودی رقم استعمال کرنا جائز ہے۔ ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃ، فلا یکفي فیہ الإطعام إلا بطریق التملیک لو أطعمہ عندہ ناویًا الزکاۃ لا تکفي۔ (الدر المختار / باب المصرف ۳؍۲۹۱ زکریا) الدفع للمدیون أولیٰ منہ للفقیر۔ (درمختار ۳؍۲۸۹) وکرہ إعطاء فقیر نصاباً أو أکثر، إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیونا أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم یخص کلاًّ، أو لا یفضل بعد دینہ نصاب، فلا یکرہ۔ (الدر المختار/ باب المصرف ۲؍۳۵۳ دار الفکر بیروت، کذا في الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۸ دار الفکر بیروت، مجمع الأنہر / باب في بیان أحکام المصارف ۱؍۳۳۳ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۳؍۱۰؍۱۴۲۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہبھیک مانگنے والے کو زکوٰۃ دینا سوال(۱۸۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ کے صحیح مصرف کون لوگ ہیں؟ کیا بھیک مانگنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو لوگ غریب اور نادار ہوں، یعنی صاحبِ نصاب نہ ہوں، وہ لوگ زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] باب المصرف أي مصرف الزکاۃ والعشر ہو فقیر وہو من لہ أدنی شيئٌ