خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن جعفر عن أبیہ: أن علیا کان لا یری بأسا أن یحج الصرورۃ عن الرجل۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / الحج ۸؍ ۱۸۹ رقم: ۱۳۵۴۲) عن مجاہد: في الرجل یحج عن الرجل ولم یکن حج قط؟ قال: یجزئ عنہ و عن صاحبہ الأول، قال أبو بکر: الصرورۃ الذي لم یحج قط۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / الحج ۸؍ ۱۸۹ رقم: ۱۳۵۴۳) یجوز إحجاج الصرورۃ وہو الذي لم یحج أولا عن نفسہ لکنہ مکروہ۔ (البحر الرائق ۳؍ ۶۹کراچی، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۴۹ زکریا دیوبند ) والذي یقتضیہ النظر أن حج الصرورۃ عن غیرہ إن کان بعد تحقیق الوجوب علیہ بملک الزاد والراحلۃ والصحۃ، فہو مکروہ کراہۃ تحریم۔ (فتح القدیر ۳؍۱۶۰ بیروت) والأفضل إحجاج الحر العالم بالمناسک الذي حج عن نفسہ۔ (شامي ۴؍۲۱ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۴۹ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۷ کوئٹہ، بدائع الصنائع / بیان شرائط جواز النیابۃ ۳؍۲۷۴ بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۶؍۱۴۳۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہعورت کی طرف سے کیا عورت حج بدل کرسکتی ہے؟ سوال(۲۳۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میری والدہ محترمہ ضعیف بھی ہے، اور ہاٹ کی مریضہ بھی ہے، ان کے بدلے میں میں کسی کو حج کے لئے بھیجنا چاہتا ہوں، اس کی کیا شکل ہے؟ کیسے آدمی کو بھیجا جائے؟ عورت کو یا مرد کو بھیجا جائے، حج بدل کے بارے میں پوری تفصیل تحریر فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد کی طرف سے عورت کو حج بدل کرنا جائز مگر مکروہ