خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الناسک ۲۴۱، منحۃ الخالق ۳؍۱۶، البحر الرائق ۳؍۷ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۴۳) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۶؍۳؍۱۴۳۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمحرم کے لئے خوشبو دار تیل وغیرہ لگانا؟ سوال(۸۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: احرام کی حالت میں خوشبودار تیل، کریم، شیمپو اور خوشبو دار صابن استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز استعمال کرلی تو کیا حکم ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: احرام کی حالت میں مذکورہ چیزوں کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اگر کسی شخص نے خوشبو دار کریم، تیل یا شیمپو اور صابن وغیرہ بدن پر لگالی، اور ایک مکمل عضو پر یا بار بار اس کا استعمال کیا، تو اس کے اوپر جزا کے طور پر ایک دم واجب ہوگا، اور اگر تیل کریم وغیرہ پورے عضو پر نہیں لگایا، یا صابن سے صرف ایک بار ہاتھ یا سر وغیرہ دھویا، تو صرف صدقہ واجب ہوگا؛ البتہ احرام کی حالت میں بغیر خوشبو کے صابن کے استعمال سے کوئی جزاء لازم نہیں ہوتی۔ عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما أنہ کرہ شم الریحان للمحرم۔ (معرفۃ السنن والآثار للبیہقي ۴؍۲۲ رقم: ۲۸۵۲، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۱۲۵ رقم: ۹۱۸۷ بیروت) وأما المطیب منہما وہو ما ألقی فیہ الأنوار کدہن البنفسج والیاسمین والورد والبان والخیری وما أشبہ ذٰلک، فإذا ادہن بہ عضواً کبیراً کاملاً فعلیہ دم بالاجماع؛ لانہ طیب، وفی الاقل منہ صدقۃ۔ (غنیۃ الناسک ۲۴۸-۲۴۹) ولو غسل رأسہ او یدہ باشنان فیہ الطیب فان کان من راٰہ سماہ اشناناً فعلیہ صدقۃ الا ان یغسل مراراً فدم۔ (غنیۃ الناسک ۲۴۹) ہشام عن محمد لو غسل المحرم یدہ بأشنان فیہ طیب، فإن کان إذا نظروا إلیہ قالوا: ہٰذا أشنان، ففیہ الصدقۃ، وإن قالوا: ہو طیب فعلیہ الدم۔