خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
من مکۃ وعندہما لا یکون متمتعاً ویکون لحوقہ بہٰذا الموضع کلحوقہ بأہلہ۔ (الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۲۰۶، غنیۃ الناسک ۲۱۳ جدید) أما إذا رجع إلی غیر بلدہ کان متمتعًا عند أبي حنیفۃ ویکون کأنہ لم یخرج من مکۃ، وعندہما لا یکون متمتعاً ویکون کأنہ رجع إلی بلدہ ولا فرق عندہما بین أن ینوي الإقامۃ في غیر بلدہ خمسۃ عشر یومًا أو لم ینو۔ (الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۲۰۵) کوفي قدم العمرۃ في أشہر الحج ففرغ منہا وحلق أو قصر ثم اتخذ بمکۃ أو البصرۃ داراً ثم حج من عامہ فہو متمتع، اعلم بأن ہٰذہ المسألۃ علی أربعۃ أوجہ: … الوجہ الثالث: إذا خرج من المواقیت وعاد إلی أہلہ ثم حج من عامہ ذٰلک، وفي ہٰذا الوجہ ہو لیس بمتمتع۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۲۹ رقم: ۵۲۰۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہمتمتع شخص عمرہ کا احرام باندھ کر ۷-۸؍ذی الحجہ کو مکہ پہنچا؟ سوال(۷۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کسی نے حج تمتع کی نیت سے احرام باندھا اور وہ مکہ ۷-۸ ؍ذی الحجہ کو پہنچے، تو وہ عمرہ کا احرام کس طرح کھولے؟ اور پھر اس عمرہ کی قضاء ہوگی یانہیں؟ عمرہ کے احرام سے نکلنے کی کیا صورت ہوگی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی متمتع شخص عمرہ کا احرام باندھ کر ۷-۸؍ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچا، تو اس پر اولاً عمرہ کرنا لازم ہے، عمرہ کے اعمال سے فارغ ہوکر حلق کرائے، پھر حج کا احرام باندھ کر منی اور عرفات جائے؛ البتہ اگر متمتع شخص ایسے وقت مکہ معظمہ پہنچا کہ اگر عمرہ میں