خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
(درمختار) فیجب فیما دون النصاب بشرط أن یبلغ صاعًا، وقیل: نصفہ، وفي الخضروات التي لا تبقی، وہٰذا قول الإمام، وہو الصحیح کما في التحفۃ۔ قولہ: و’’حولان حول‘‘ حتی لو أخرجت الأرض مراراً وجب في کل مرۃ لإطلاق النصوص عن قید الحول، قولہ: ’’لأن فیہ معن المؤنۃ‘‘ أي في العشر معنی مؤنۃ الأرض: أي أجزئتہا فلیس بعبادۃ محضۃ۔ (درمختار مع الشامي / باب العشر والخراج ۳؍۲۶۶ زکریا) ومن کان لہ نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسہ ضمہ إلی مالہ وزکاہ، سواء کان المستفاد من نمائہ أو لا، وبأي وجہ استفاد ضمہ، سواء کان بمیراث أو ہبۃ أو غیر ذٰلک۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۵) فقط واﷲ تعالی اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۴؍۱۴۲۶ھ الجواب صحیح :شبیر احمد عفا اﷲ عنہفصل خراب ہو جانے کے بعد ما بقیہ پیدا وار میں زکوٰۃ کا حکم سوال(۳۲۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: غیر عشری زمین میں اگر کسی سال فصل خراب ہوگئی اور لاگت کے برابر یا اس سے کچھ کم وبیش فصل ہوئی، تو اس صورت میں زکوٰۃ کا کیا حکم ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر شرعی وغیر خراجی زمینوں میں پیداوار کا حساب نہیں لگایا جاتا؛ بلکہ لاگت کو نکال کر صرف نفع کی رقم کو دیکھا جائے گا، اگر وہ خود یا دیگر جمع شدہ روپئے پیسے سے مل کر نصاب تک پہنچتی ہے تو اس میں حسبِ ضابطہ زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔ عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیس فیما دون خمسۃ أوسق من التمر صدقۃ، ولیس فیما دون خمس أواق من الورق صدقۃ، ولیس فیما دون خمس ذود من الإبل صدقۃ۔ (صحیح البخاري رقم: ۱۴۵۹، صحیح مسلم ۹۷۹، مشکاۃ المصابیح رقم: ۱۷۹۴)