خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
صدقہ فطر وصول کرنا اور اس سے اپنے بچوں کی تعلیم کا نظم کرنا درست ہے؛ لہٰذا اگر آپ واقعی غریب تھے، تو آپ نے فطرہ وغیرہ کی رقم لے کر بچوں کو پڑھانے میں کوئی غلط عمل نہیں کیا، اس لئے آپ کو مطمئن رہنا چاہئے، اب کسی تلافی کی ضرورت نہیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] والحنفیۃ علی أنہ إن لم یکن لہ نصاب حلت لہ الصدقۃ۔ (إعلاء السنن ۹؍۷۷ کراچی) المعتبر جواز أخذہا لمن ملک أقل من النصاب کما یجوز دفعہا؛ لکن عدم الأخذ أولیٰ لمن لہ السداد من عیش۔ (مجمع الأنہر ۱؍۳۲۵) لو سأل للکسوۃ أو لاشتغالہ عن الکسب بالجہاد أو طلب العلم جاز، وفي الشامیۃ: أشار إلی أن لہ السوال وإن کان مکتسباً - إلی قولہ - وینبغي أن یلحق بہ أي بالغازي طالب العلم لاشتغالہ عن الکسب بالعلم؛ ولہٰذا قالوا: إن نفقتہ علی أبیہ وإن کان صحیحاً مکتسباً کما لو کان زمناً۔ (شامي ۳؍۳۰۶ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۶؍۱۴۳۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہڈاکٹری پڑھنے والی بچی پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا؟ سوال(۲۲۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہماری بھتیجی جو ڈاکٹری پڑھ رہی ہے، اور میرے بھائی پر اس کا خرچہ بوجھ بن جاتا ہے، میری حالت اس کے اعتبار سے زیادہ ہے، وہ بھتیجی بالغہ ہے اور اس کی ذاتی ملکیت کچھ نہیں ہے، کیا اس بھتیجی کو زکوٰۃ کے پیسہ سے امداد کرسکتا ہوں، جب کہ بھائی نصاب غیر نامی کا مالک ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کی بالغہ بھتیجی کے پاس اگر اپنا ذاتی بقدر نصاب مال نہیں ہے، تو اس پر زکوٰۃ کا پیسہ خرچ کرنا فی نفسہٖ درست ہے؛ لیکن بہتر یہی ہے کہ عصری تعلیم