خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ تعالی قد فرض علیہم زکاۃ تؤخذ من أموالہم وترد علی فقرائہم۔ (صحیح البخاري ۱؍۱۹۶، صحیح مسلم ۱؍۳۶) مصرف الزکاۃ ہو فقیر، وہو من لہ أدنی شيء … ومسکین من لا شيء لہ علی المذہب۔ (درمختار علی الشامي ۳؍۲۸۳-۲۸۴ زکریا، عالمگیري ۱؍۱۸۷، البحرالرائق ۲؍۲۴۰، بدائع الصنائع ۲؍۱۴۹) والحیلۃ لہ أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر، ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف إلی ہٰذہ الوجوہ۔ ( الفتاوی الہندیۃ ۶؍۳۹۰دار الفکر بیروت) والأحق بالإمامۃ - الأحسن خلقا، بالضم ألفۃ بالناس۔ (درمختار علی الشامي ۲؍۲۹۴-۲۹۵ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۶؍۲؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجو مکتب غریب طلبہ کا کفیل نہ ہو اس میں زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۶۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مکتب ہے جس میں صرف مقامی بچے پڑھتے ہیں، جو دونوں وقت پڑھ کر گھر چلے جاتے ہیں، چند طلبہ واساتذہ مدرسہ کی خدمت کے لئے مدرسہ میں قیام کرتے ہیں، جن کا کھانا بستی کے چند اہلِ خیر حضرات کے یہاں سے آجاتا ہے، مدرسہ میں بنانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی مدرسہ میں مطبخ قائم ہے، تو کیا ایسے مدرسہ میں صدقاتِ واجبہ، زکوٰۃ، فطرہ اور چرمِ قربانی وغیرہ کی رقومات دے سکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے مکتب میں جہاں غریب ونادار طلبہ کی کفالت نہ کی