خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وغیرہ کا ہے کہ بچوں کی شادی کی وجہ سے حج کو مؤخر نہ کیا جائے۔ لہ ألف وخاف العزوبۃ إن کان قبل خروج أہل بلدہ فلہ التزوج ولو وقفہ لزمہ الحج۔ (غنیۃ الناسک ۲۰، شامي ۳؍۴۹۱ زکریا، البحر العمیق ۱؍۳۸۱، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۷۳، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۷، فتح القدیر ۲؍۴۱۳ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری ۶؍۳؍۱۴۳۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہبیٹی کی شادی کی وجہ سے حج فرض ہوجانے کے بعد مؤخر کرنا؟ سوال(۴۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص جو کہ ہندوستان کا رہنے والا ہے اس کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ حج کو جاسکے؛ لیکن اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس کی عمر شادی کی ہوچکی تھی، پیسے اس کے پاس اتنے ہی تھے کہ وہ یا تو حج کو جاسکتا تھا، یا بیٹی کی شادی کرسکتا تھا، گھر والوں کا اصرار تھا کہ بیٹی کی شادی کرو؛ لیکن اس شخص نے حج پر جانا مقدم سمجھا اور حج پر چلا گیا، اس طرح اس نے حج کا فریضہ تو ادا کرلیا؛ لیکن اس فریضہ کی ادائیگی میں سارے پیسے ختم ہوگئے۔ اب صورت یہ ہے کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بیٹی کی شادی میں تاخیر ہونے کا امکان ہے، دوبارہ اتنا پیسہ اکٹھا کرنے میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کہ بیٹی کی شادی کی عمر ہی خدا نخواستہ نکل جائے، اگر عمر نہ نکلے تو بھی جس بیٹی کی شادی ابھی ہوجانی چاہئے تھی، اس بیٹی کی شادی میں امکانی تاخیر کا خیال ہی گھر والوں کے لئے ایک تکلیف دہ امر ہے، خیال پیدا ہوتا ہے کہ بیٹی کی شادی کے اسباب (پیسے) کو فریضہ حج کی ادائیگی میں خرچ کرنے کے اس عمل کو کیا سمجھا جائے، اﷲ رب کائنات ہے اور ہر چیز پر قادر ہے، وہ کسی کام کے لئے کسی سبب کا محتاج نہیں، بغیر کسی سبب کے بھی وہ سب کچھ کرسکتا ہے، بغیر کسی سبب کے قادر ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کرتا، جب اﷲ قادر ہوتے ہوئے بھی اسباب کا سہارا لیتا ہے، تو ہم محتاج ہوکر اسباب پیدا کرنے کی کوشش کریں، تو اس میں شرم کی کوئی بات نہیں اور نہ ہی کوئی