خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الصدقۃ لغني ولا لذي مرۃ سوي۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۴۱ رقم: ۶۴۷) ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصابا، أي مال کان دنانیر أو دراہم أو سوائم أو عروضہا للتجارۃ أو لغیر التجارۃ فاضلاً عن حاجتہ في جمیع السنۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) مصرف الزکاۃ والعشر ہو الفقیر، وہو من لہ أدنی شيء۔ (الدر المختار/ باب المصرف ۲؍۳۳۹ کراچی) ولا یجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہا الفقیر۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۲ زکریا) ولا إلی غني یملک قدر النصاب۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۲۹۵ زکریا، وکذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۹ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجو شخص ضرورتِ اَصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو، اسے زکوٰۃ دینا سوال(۱۹۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص کے پاس اپنا ایک رہائشی مکان ہے، جس کی قیمت تقریباً ۵۰؍ ہزار روپئے ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے، کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر دے دی تو ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر یہ شخص ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہیں ہے اور سید بھی نہیں ہے تو اسے زکوٰۃ دینی درست ہے۔ مستفاد: ولیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ