خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قولان: ہما مبنیان علی أن وجود الزوج أو المحرم شرط وجوب أم شرط وجوب أداء، والذي اختارہ في الفتح أنہ مع الصحۃ وأمن الطریق شرط وجوب الأداء فیجب الإیصاء إن منع المرض، وخوف الطریق أو لم یوجد زوج، ولا محرم، ویجب علیہا التزوج عند فقد المحرم، وعلی الأول لا یجب شيء من ذٰلک کما في البحر۔ وفي النہر: وصحح الأول في البدائع، ورجح الثاني في النہایۃ تبعاً لقاضي خان، واختارہ في الفتح۔ (در مختار مع الشامي ۲؍۴۶۴ کراچی، ۳؍۴۶۴-۴۶۵ زکریا) ومنہا المحرم للمرأۃ شابۃ کانت أو عجوزاً، إذا کانت بینہا وبین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ أیام۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۸) ولو کان معہا محرم فلہا أن تخرج مع المحرم في الحجۃ الفریضۃ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۳۰۰ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۹؍۴۷۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۱۲؍۱۴۱۰ھغیرمحرم سے رشتہ داری جوڑکر اس کے ساتھ حج کرنا سوال(۲۵۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک آدمی سے کسی عورت کی پہلے سے کوئی رشتہ داری نہیں تھی؛ لیکن حج پر جانے کے لئے کہیں سے دور کی رشتہ داری کی کڑیاں ملاکر انہوں نے رشتہ داری قائم کرلی، تو کیا ایسے شخص کا حج ہوجائے گا جوکہ بالکل ہی غیر محرم ہے؛ لیکن اپنا کام نکالنے کے لئے انہوں نے اس طرح کی قرابت داری قائم کرلی ان کے حج میں کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر محرم کے ساتھ حج کو جانا جائز نہیں ہے، جو عورت غیر محرم کے ساتھ حج کو جائے گی وہ سخت گنہ گار ہوگی، اگرچہ اس طرح جانے سے اس کا فریضہ حج ساقط