خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
دینی اجتماع کی تیاری وغیرہ میں بھی زکوٰۃ کی رقم لگانی درست نہیں ہے؛ اس لئے کہ وہاں تملیک نہیں پائی جاتی۔ ویشترط أن یکون الصرف تملیکا لا إباحۃ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۲۶۳ بیروت) الزکاۃ یجب فیہا تملیک المال؛ لأن الایتاء في قولہ تعالی: {واٰتوا الزکاۃ} یقتضي التملیک۔ (تبیین الحقائق ۲؍۱۱۸، البحر الرائق ۲؍۲۰۱)فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۱۱؍۱۴۱۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہہمشیرہ کو زکوٰۃ دینا سوال(۲۱۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا میں اپنی ہمشیرہ کو زکوٰۃ دے سکتا ہوں؟ اور کون رشتہ دار مستحق ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ہمشیرہ واقعۃً فقیر ہو اور سادات میں سے نہ ہو، تو اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے؛ البتہ دو طرح کے رشتہ داروں کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، ایک تو ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، الی آخرہ وغیرہ، دوسرے لڑکا لڑکی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی الی آخرہ وغیرہ، اسی طرح شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی، ان کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: لا بأس أن تجعل زکاتک في ذوي قرابتک ما لم یکونوا في عیالک۔ (المصنف لابن أبيشیبۃ ۶؍۵۴۳ رقم: ۱۰۶۳۳) ولا یدفع إلی أصلہ وإن علا، وفرعہ وإن سفل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) والأفضل في الزکاۃ والفطر والنذور الصرف أولا إلی الإخوۃ والأخوات، ثم إلی أولادہم، ثم إلی الأعمام والعمات، ثم إلی أولادہم، ثم إلی الأخوال والخالات، ثم إلی أولادہم الخ ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰)