خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کا احساس دلانے کی خاطر تعلقات کے ختم کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن تعلقات کا ختم کرنا زیادہ مفید نہیں ہے، میل جول رکھ کر اصلاح کی کوشش زیادہ کار آمد ہے؛ اس لئے ایسا شخص اگر دعوت وغیرہ کرے تو اس کو قبول کرلینا چاہئے اور آنے جانے کے تعلقات کو برقرار رکھ کر اس کو گناہ سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۲۹؍۴۱۴-۴۱۵ میرٹھ) وحاصل ذلک أن الہجران إنما یحرم إذا کا من جہۃ غضب نفساني، أما إذا کان علی وجہ التغلیظ علی المعصیۃ والفسق، أو علی وجہ التأدیب کما وقع مع کعب بن مالک وصاحبیہ، أو کما وقع لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع أزوجہ، أو لعائشۃ مع ابن الزبیر رضي اللّٰہ عنہم فإنہ لیس من الہجران الممنوع، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکمۃ فتح الملہم ۵؍۳۵۶) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۸؍۱۴۲۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ۶۰ ؍ہزار روپئے جمع کرکے ۳۵ ؍ہزار میں حج کرانے کی اسکیم چلانا؟ سوال(۱۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: موسم حج سے تقریباً پانچ یا چھ ماہ قبل عازمین حج کے لئے حکومت کی جانب سے کبھی کبھی اس طرح اعلان ہوتا ہے ، کہ جو حضرات حج کاارادہ رکھتے ہوں وہ فوراً ساٹھ ہزار روپیہ نقد جمع کرادیں، حکومت انہیں ۳۵؍ہزار میں حج کرائے گی، اور حج سے واپسی کے بعد ۲۵؍ہزار روپئے واپس کردے گی، تو کیا اس طرح سے پانچ چھ ماہ قبل ۶۰؍ہزار روپئے نقد حکومت کے حوالے کرکے ۳۵ ؍ہزار میں حج کر لینا کیسا ہے؟ شرعاً درست ہے یانہیں؟ اگر کوئی اس طرح سے حج کرے تو کیا اس کا حج کرنا درست ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں حکومت کی طرف سے جو حج کی اسکیم لکھی گئی ہے، وہ ہمارے علم میں نہیں ہے، حج کمیٹی کا دستور یہ ہے کہ وہ زر مبادلہ کی رقم واپس کردیتی ہے، اور