خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ویجوز صرفہا إلی من لا یحل لہ السوال إذا لم یملک نصاباً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) وتجوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب، وإن کان صحیحًا مکتسباً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۴؍۱۲؍۱۴۱۸ھایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ کے مالک کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۱۹۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کسی شخص پر زکوٰۃ کا ایک لاکھ یا پچاس ہزار روپیہ اکھٹا ہوگیا ہے، یا پھر ہندوستانی قانون کے مطابق وہ انکم ٹیکس کی زد میں آگیا ہو، تو کیا وہ پھر بھی زکوٰۃ لینے کا حق دار ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ شخص جس کے پاس ڈیڑھ لاکھ روپیہ جمع ہے ، وہ شرعاً مال دار ہے، اسے زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اس کے لئے زکوٰۃ لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن عطاء بن یسار أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ: لغاز في سبیل اللّٰہ، أو لعامل علیہا، أو لغارم، أو لرجل اشتراہا بمالہ، أو لرجل کان لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فأہداہا المساکین للغني۔ (سنن أبي داؤد / باب من یجوز لہ الصدقۃ وہو غني ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۴۳۵، سنن ابن ماجۃ / باب من تحل لہ الصدقۃ ۱؍۱۳۲ رقم: ۱۸۴۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لاتحل الصدقۃ لغني ولا لذي مرۃ سوي۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۴۱ رقم: ۶۴۷)