خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
پاس زیور بھی نہیں ہے، جس کو بیچ کر قرض ادا کردے، تو کیا ایسا شخص زکوٰۃ کا مستحق بنتا ہے یعنی وہ زکوٰۃ کے مال کو لے کر اپنے اوپر خرچ نہ کرکے صرف قرضہ کی ادائیگی میں دے کر قرض سے سبکدوش ہوسکتا ہے یا نہیں، یعنی زکوٰۃ کے مال سے قرض ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: پہلے آپ اپنی دوکان میں موجود ۵۶؍ہزار روپیہ کا سامان فروخت کرکے قرضہ ادا کریں اور اس دوران آپ اپنا قرضہ جو دوسروں پر ہے، اسے وصول کرنے کی کوشش کرتے رہیں، اور جیسے جیسے قرضہ وصول ہوتا رہے اس سے اپنے قرضہ کی ادائیگی کرتے رہیں، اگر یہ سب مال دینے کے باوجود بھی آپ کا قرضہ رہ جائے تو اس مجبوری کی صورت میں بچے ہوئے قرضہ کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ لے سکتے ہیں، اس کے بغیر لینا جائز نہیں۔ عن معقل قال: سألت الزہري عن {الْغَارِمِیْنَ} قال: أصحاب الدین {وَابْنِ السَّبِیْلِ} وإن کان غنیًا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۲؍۴۲۴ رقم: ۱۰۶۶۲ بیروت) ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من ملک نصاباً سواء کان من النقود أوالسوائم أو العروض۔ (شامي ۳؍۲۹۷ زکریا، ہدایۃ / باب من یجوز دفع الصدقات إلیہ ۲؍۷۸ مکتبۃ البشریٰ کراچی) ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصاباً أي مال کان دنانیر أو دراہم أو سوائم أو عروضاً للتجارۃ أو لغیر التجارۃ فاضلاً عن حاجتہ في جمیع السنۃ ہٰکذا في الزاہدي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۲؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمقروض کو یک مشت نصاب سے زائدرقم دینا؟ سوال(۲۴۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مقروض ضرورت مند شخص کو پندرہ ہزار روپئے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟