خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کے بجائے دینی تعلیمی شعبوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے۔ وکذا إلی البنت الکبیرۃ إذا کان أبوہا غنیا؛ لأن قدر النفقۃ لا یغنیہا، وبغني الأب والزوج لا تعد غنیۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۰ رقم: ۴۱۴۶ زکریا) یجوز دفع الزکاۃ لطالب العلم وإن کان لہ نفقۃ أربعین سنۃ۔ (شامي ۳؍۲۸۵ زکریا) ویجوز صرفہا إلی من لایحل لہ السوال إذا لم یملک نصاباً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) وتحوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب وإن کان صحیحًا مکتسباً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہزکوٰۃ سے بچی کی فیس ادا کرنا؟ سوال(۲۲۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میں ایک غریب آدمی ہوں اپنی بچی کو تعلیم نہیں دلا سکتا، وہ اسکول میں پڑھنا چاہتی ہے، کیا میں اس کی فیس کسی سے زکوٰۃ لے کر ادا کرسکتا ہوں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بچی ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے جہاں پردے کا مکمل اہتمام ہو اور دینیات بھی لازمی مضمون میں شامل ہو، اور اس کا گھر سے اسکول آنا جانا بھی مکمل پردے کے ساتھ ہو اور تعلیم کا مقصد بھی درست ہو کہ اس کے ذریعہ سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کی نیت ہو، تو ایسی تعلیم کے لئے لاچار اور غریب شخص زکوٰۃ لے کر فیس ادا کرسکتا ہے؛ لیکن اگر بے پردے کے ساتھ یا مخلوط تعلیم یا ہندؤں اور عیسائیوں کے اسکولوں میں بددینی کے ماحول کے ساتھ تعلیم دی جارہی ہو، تو ایسی تعلیم سرے سے ناجائز ہے، اس کے لئے