خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
آبادی نہیں ہے؛ اس لئے کہ شہری حدود میں شمولیت کے لئے آبادی اور تعمیرات کا ہونا لازمی شرط نہیں ہے۔ آج بھی بڑے بڑے شہروں میں لق ودق پارک اور بڑے بڑے وسیع الشان میدان ضرورت کی بنا پر عمارتوں سے خالی رکھے جاتے ہیں۔ (دہلی کے قلب میں انڈیا گیٹ کے اطراف کا بہت بڑا رقبہ محض میدان ہے، اسی طرح کی صورتِ حال اور بڑے شہروں میں بھی ہے) لیکن انہیں کوئی بھی شہر سے باہر قرار نہیں دیتا، پھر منیٰ اور مزدلفہ وغیرہ ہی کو اتصال آبادی کے باوجود الگ جگہیں قرار دینے پر اصرار کیوں ہے؟ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ (ماخوذ: کتاب المسائل ۳؍۲۷۸-۲۷۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلمموسم حج میں ’’منیٰ‘‘ میں جمعہ کا کیا حکم ہے؟ سوال(۱۱):- موسم حج کے موقع پر قیام منیٰ کے دوران جمعہ کا دن آجائے تو منیٰ میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کن دلائل کی بنیاد پر؟ اگر ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ سوال(۱۷۲):- فقہی کتابوں میں ایام حج میں منیٰ کو شہر قرار دیا گیا ہے، چناںچہ ایام حج میں وہاں جمعہ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ البحر الرائق میں ہے: ومنیٰ مصر لا عرفات، فتجوز الجمعۃ بمنیٰ۔ (البحر الرائق ۲؍۱۴۲) اور موجودہ دور میں یہ بات مخفی نہیں ہے کہ منیٰ میں شہر ہونے کی تمام شرائط ایام حج میں متحقق ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا ایام حج میں بھی منیٰ کو غیر آباد مان کر مکہ سے عدم اتصال ثابت کرنا کیا صحیح ہوسکتا ہے؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایامِ حج کی آبادی کو معتبر مان کر منیٰ کو مکہ معظمہ سے متصل قرار دیا جائے؟ کیا شرعاً اس میں کوئی حرج ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفیہ کے نزیک قیام منی کے دوران اگر جمعہ کا دن آجائے تو منی میں بلاشبہ جمعہ جائز ہے اور اس کے بارے میں فقہ میں صراحت موجود ہے کہ ایام حج میں منی شہر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ غیر ایام حج میں یہاں