خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
فطرہ کی رقم کا مصرف؟ سوال(۳۴۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: فطرہ کی رقم کس مد میں دی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: فطرہ فقیر، مسکین اور مسافر وغیرہ کو دے سکتے ہیں، اور غنی، سید، بیوی، شوہر اور اصول وفروع کو نہیں دے سکتے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی رقم کسی کافر کو نہیں دے سکتے؛ البتہ فطرہ کے بارے میں ایک روایت حضرات طرفینؒ سے جواز کی ملتی ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] وفي الحدیث المرفوع الصحیح قال علیہ السلام: تؤخذ من أغنیائہم فترد علی فقرائہم … الخ۔ (متفق علیہ، مشکاۃ المصابیح رقم: ۱۷۷۲، صحیح البخاري رقم: ۱۴۹۶، صحیح مسلم رقم: ۱۹) قال علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ: لیس لوالد حق في صدقۃ مفروضۃ الخ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۱۰؍۱۳۰ رقم: ۱۳۵۰۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ومصرف ہٰذہ الصدقۃ ما ہو مصرف الزکوٰۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۴) ولایدفع إلی أصلہ وإن علا، وفرعہ وإن سفل، ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصاباً۔ ولا یدفع إلی بني ہاشم …، وأما أہل الذمۃ فلا یجوز صرف الزکاۃ إلیہم بالاتفاق، ویجوز صرف صدقۃ التطوع إلیہم بالاتفاق، واختلفوا في صدقۃ الفطر والنذور والکفارات، قال أبوحنیفۃ ومحمدؒ: یجوز إلا أن فقراء المسلمین أحب إلینا۔ ( الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۸) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۸؍۱۴۱۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ