خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وأما الغارمون فہم الذین لزمہم الدین فہم محل الصدقۃ، وإن کان في أیدیہم مال إذا کان المال لایزید علی الدین قدر مائتي درہم فصاعداً۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۲ رقم: ۴۱۳۱ زکریا) أخرج مسلم حدیثاً طویلاً … فیہ : یا قبیصۃ: إن المسئلۃ لاتحل إلا لأحد ثلاثۃ: رجل تحمل حمالۃ فحلت لہ المسئلۃ، حتی یصیبہا ثم یمسکہا۔ (صحیح مسلم / باب من تحل لہ المسئلۃ ۱؍۳۳۴ رقم: ۱۰۴۴) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۵؍۱۴۲۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمقروض صاحبِ جائیداد کا زکوٰۃ لینا ؟ سوال(۲۴۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص ہے جس کے اوپر تقریباً ۶۵؍ ہزار روپیہ قرض ہے، نوعیت اس کی اس طرح سے ہے، اس کے پاس ایک کھیت سولہ ۱۷؍ بیگھہ کا ہے، اس کھیت میں کسی قسم کی پیداوار نہیں ہوسکتی، اس وجہ سے وہ بک بھی نہیں سکتاہے، ایک دوسرا کھیت ہے جو تقریباً ڈھائی بیگھہ ہے، جس سے وہ اپنا گذر بسر کررہا ہے، مکان بھی اس کا خود کا ہے جو اس کی ضرورت کے مطابق رہنے کے لائق ہے، کیا یہ شخص زکاۃ لیکر اپنا قرض ادا کرسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: برتقدیر صحت واقعہ مذکورہ مجبور شخص بقدر ضرورت زکوٰۃ لے کر اپنا قرض ادا کرسکتا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۷؍۳۷۳) عن عطاء بن یسار أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ: لغاز في سبیل اللّٰہ، أو لعامل علیہا، أو لغارم۔ (سنن أبوداؤد / باب من یجوز لہ أخذ الصدقۃ وہو غني ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۶۳۵، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۲ رقم: ۴۱۳۱ زکریا)