خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کیا صدقاتِ واجبہ اور زکوٰۃ کی طرح صدقاتِ نافلہ میں بھی تملیک شرط ہے؟ سوال(۳۵۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ غریب مستحق کو دے کر مالک بنانا ضروری ہے، بغیر مستحق زکوٰۃ اور تملیک کے ادئیگی زکوٰۃ نہیں ہوتی ہے، تو کیا صدقاتِ نافلہ کو بھی غریب ومستحق زکوٰۃ تک پہنچانا اور مالک بنانا ضرری ہے؟ اگر صدقاتِ نافلہ غیر مستحق کو یا مسجد ومدرسہ میں دیا جائے تو صحیح ہے یا نہیں؟ ایک مفتی صاحب سے مسئلہ معلوم کیا تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ صدقاتِ نافلہ کو بھی غریب مستحق کو دے کر مالک بنانا ضروری ہے، جس طرح زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ میں ضروری ہوتا ہے، اور ہر طرح کے صدقات وزکوٰۃ چاہے وہ نافلہ ہوں یا واجبہ، سب میں تملیک اور مستحق تک پہنچانا ضروری ہے، اس لئے یہ مسئلہ باعثِ تشویش ہوگیا، حضور والا مفتی شبیر احمد صاحب اور مفتی محمد سلمان صاحب زید مجدہما اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: صدقۂ نافلہ کی دو جہتیں ہیں، اور دونوں میں مستقل ثواب ہے: اول صدقہ:- تو یہ صدقہ اسی وقت بنے گا، جب کہ مستحق پر خرچ کیا جائے۔ دوم تبرع واحسان:- اس معنی کے اعتبار سے صدقۂ نافلہ کو مستحق اور غیر مستحق دونوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے، اور اس میں تملیک وغیرہ کی کوئی شرط نہیں، ثواب دونوں صورتوں میں ملتا ہے، جس میں حالات اور تقاضوں کے اعتبار سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۹؍۶۴۲ ڈابھیل) قال الشیخ عبد الحق محدث الدہلوي في اللمعات: تحت حدیث إن ہٰذہ الصدقات إنما ہي أوساخ الناس وأنہا لا تحل لمحمد ولا لآل محمد۔ (صحیح مسلم ۱۰۷۲)