خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
النیۃ تعتبر في أداء الزکاۃ؛ لأنہا عبادۃ۔ وفي السراجیۃ: إذا کان وقت التصدق بحال لو سئل عنہ عما ذا یؤدي یمکنہ أن یجب من غیر فکرۃ، فذٰلک یکون نیۃ منہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الزکاۃ / باب أداء الزکاۃ والنیۃ فیہ ۳؍۱۹۶ رقم: ۴۱۱۳ زکریا) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً۔ (الدر المختار ۲؍۳۴۴ کراچی، ۳؍۲۹۱ زکریا، مستفاد: احسن الفتاویٰ ۲۹۲۴) سئل عن معلم لہ خلیفۃ في المکتب یعلم الصبیان ویحفظہم ویکتب ألواحہم ولم یستأجرہ بشئ معلوم وما اشترط شیئاً والمعلم یعطیہ في الأحایین دراہم بنیۃ الزکاۃ ہل یجوز عن الزکاۃ؟ قال: نعم! إلا أن یکون بحیث لو لم یعطہ لم یعمل لہ ذلک في مکتبہ ۔ (الفتاویٰ التاتار خانیۃ ۲؍۲۰۹-۲۱۰ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۸؍۵؍۱۴۱۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہغریب کو مکان بنانے کے لئے زکوٰۃ کی رقم دینا؟ سوال(۱۷۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک صاحب مالکِ نصاب نہیں ہے اور اس کے پاس مکان ہے، مگر وہ بیچ نہیں سکتے، بالائی منزل ہے، اس شخص کو وہاں رہنے میں جھگڑا فساد ہوتا ہے، ذہنی سکون نہیں ہے، تو اگر ایسے شخص کو زکوٰۃ کا روپیہ دے کر اس کی مدد کردی جائے اور وہ اسی رقم سے دوسری جگہ مکان خرید لے، تو کیا یہ جائز ہے یا کاروبار بھی کرسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی مستحق زکوٰۃ کو بیک وقت اتنا مال زکوٰۃ میں دینا کہ وہ خود صاحبِ نصاب ہوجائے مکروہ ہے، ہاں اگر آپ کسی سے قرض لے کر مکان بنالیں اور کوئی شخص آپ کا پورا قرض آپ کے کہنے پر زکوٰۃ کی رقم سے ادا کردے، تو یہ مکروہ نہیں ہے۔