خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
إنما أمر بقتل الغراب في الحرم؛ لأنہ یقع علی دبر البعیر۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۵۵۷ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۱۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہسیدھے مدینہ منورہ جانے والا شخص احرام کہاں سے باندھے؟ سوال(۶۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کچھ حاجیوں کو حج سے پہلے ہی مدینہ بھیج دیا جاتا ہے، کیا ایسا حاجی بھی احرام باندھ کر جائے گا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص ہندوستان سے سیدھا مدینہ جانے کا ارادہ کرے، اس کے لئے یہاں سے احرام باندھنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جائے گا تو میقات (ذو الحلیفہ) سے احرام باندھے گا۔ وجاز تقدیمہ أي الإحرام وعلیہا أي المواقیت لا تأخیرہ عنہا لقاصد متعلق بقولہ جاز، دخول مکۃ ولو لحاجۃ أي للحج أو للعمرۃ أو لحاجۃ أخریٰ، قید بقصد الدخول؛ لأنہ لو لم یقصد ذٰلک لیس علیہ أن یحرم (غرر الأحکام) قولہ: قیّد بقصد الدخول؛ لأنہ لو لم یقصد ذٰلک لیس علیہ أن یحرم، أي بأن قصد الآفاقي موضعاً من الحل داخل المیقات کخلیص وجُدَّۃَ، فإذا حل بہ التحق بأہلہ، فلہ أن یدخل مکۃ بلا إحرام۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام / تقدیم الإحرام علی المواقیت ۱؍۲۱۸ المکتبۃ الشاملۃ، مجمع الأنہر ۱؍۳۰۳ دار إحیاء التراث العربي بیروت) ومن جاوز وقتہ یقصد مکاناً في الحل، ثم بدا لہ أن یدخل مکۃ فلہ أن یدخلہا بغیر إحرام۔ (البحر الرائق / باب مجاوزۃ المیقات بغیر إحرام ۳؍۴۹ کراچی) أما لو قصد موضعا من الحل کخلیص وجدۃ حل لہ مجاوزتہ بلا إحرام۔