خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
۲۴؍ہزار روپئے میں فروخت کیا، اور وہ رقم ایک کاروبار میں لگائی، جس سے ۵۰۰؍ روپئے ماہانہ منافع ملتا ہے؛ جب کہ ان ۵۰۰؍روپیوں میں گذار اممکن نہیں، اگر وہ عورت اپنی گذر بسر کرنے کے لئے کاروبار میں سے اپنے پیسے واپس لے کر خرچ کردے تو پھر آئندہ کیا کرے؟ آپ سے عرض یہ ہے کہ اتنا بتادیں کہ ان کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ بچے مالک نصاب نہیں ہیں تو ان پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا شرعاً جائز ہے۔ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ … قالوا: فمن المسکین یا رسول اللّٰہ۔؟ قال: الذي لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ۔ (رواہ الشیخان، تفسیر ابن کثیر ۶۱۶ دار السلام ریاض) یصرف العشر والخراج إلی ما نص اللّٰہ في کتابہ وہو قولہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} والفقیر الذي لا یسأل؛ لأن عندہ ما یکفیہ للحال، والمسکین الذي یسأل؛ لأنہ لا یجد شیئًا۔ (الفتاویٰ السراجیۃ ۵۳ دار العلوم زکریا أفریقیا) في الدر المختار: ولا إلی طفلہ بخلاف ولدہ الکبیر…، وطفل الغنیۃ فیجوز لانتفاء المانع۔ وفي الشامیۃ: بخلاف الکبیر فإنہ لا یعد غنیاً بغني أبیہ…، ولا الطفل بغني أمہ۔ (شامی کراچی ۲؍۳۵۰، زکریا ۳؍۲۹۸-۲۹۹) وفي معراج الدرایۃ: قولہ: ویجوز دفعہا إلی من یملک أقل من ذٰلک، ولکنہ لا یطیب للآخذ … وہو غیر صحیح؛ لأن المصرح بہ في غایۃ البیان وغیرہا أنہ یجوز أخذہا لمن ملک أقل من النصاب کما یجوز دفعہا۔ (البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۲۴۵ کراچی، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹)