خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
صورتِ مسئولہ میں ایسی آمدنی سے حج کرنا درست ہوگا۔ عن علي رضي اللّٰہ عنہ مرفوعًا کل قرض جر منفعۃً فہو ربا۔ (إعلاء السنن ۱۴؍۵۶۶ رقم: ۴۸۵۸، وکذا في المصنف لعبد الرزاق ۸؍۱۴۶ رقم: ۱۴۶۶۲) عن مالک أنہ بلغہ أن رجلاً أتی عبد اللّٰہ بن عمر، فقال یا أبا عبد الرحمن! إني أسلمت رجلاً سلفاً واشترطت علیہ أفضل مما أسلفتہ، فقال عبد اللّٰہ بن عمر: فذٰلک الربا…الخ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۸؍۲۷۷ رقم: ۱۱۰۹۶) کذا تستفاد من العبارۃ الاٰتیۃ: القرض لا یتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منہا لایبطلہ …، وفي الخلاصۃ: القرض بالشرط حرام والشرط لغو۔ (درمختار، کتاب البیوع / باب المرابحۃ والتولیۃ ۵؍۱۶۵-۱۶۶ کراچی، ۷؍۳۹۴ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱۲؍۱۴۱۳ھمخلوط کمائی کی رقم سے حج کرنا؟ سوال(۵۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اس رقم کو جو مخلوط کمائی سے حاصل ہوئی ہے، حج کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:حرام اور مشتبہ آمدنی سے حج کرنے سے اگرچہ فریضہ ادا ہوجائے گا؛ لیکن حرام آمدنی خرچ کرنے کا گناہ ہوگا، اور اجر وثواب سے محرومی ہوگی، اس لئے لازم ہے کہ حج میں بالکل بے غبار رقم لگائی جائے، اگر اپنے پاس غیرمشتبہ مال نہ ہو تو کسی سے قرضِ حسنہ لے کر حج کیا جائے۔ عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یکسِبُ عبدٌ مال حرامٍ، فیتصدق منہ فیقبلَ منہ، ولا یُنفق منہ،