خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وقیل: ہو رطلان، وبہ أخذ أبوحنیفۃ وفقہاء العراق فیکون الصاع ثمانیۃ أرطالٍ۔ (النہایۃ ۲؍۷۸۴ بحوالہ: نخب الأفکار ۱۰؍۴۰۸) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۱؍۱۴۱۲ھغریب آدمی پر صدقۂ فطر دینا واجب نہیں سوال(۳۴۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص ہے جو کہ غریب ہے وہ صاحبِ نصاب بھی نہیں ہے، اور زکوٰۃ دینے کی حالت میں بھی نہیں ہے، تو وہ فطرہ دے سکتا ہے، کیا اسے اپنا اور اپنے بچوں کا فطرہ دینا ضروری ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص غریب ہو اس پر صدقۂ فطر دینا لازم نہیں ہے، اور اگر اَدا کردے تو منع بھی نہیں۔ {وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ} [البقرۃ: ۱۵۸] قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صدقۃ إلا عن ظہر غنًی۔ (ذکرہ البخاري تعلیقاً ۱؍۳۸۴، وقد وصلہ الإمام أحمد في مسندہ عن أبي ہریرۃ ۲؍۲۳۰) باب صدقۃ الفطر: تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب أو قیمتہ، وإن لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر ولم یکن للتجارۃ فارغ عن الدین وحاجتہ الأصلیۃ وحوائج عیالہ۔ (نور الإیضاح علی مراقي الفلاح / باب صدقۃ الفطر ۲۶۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ولا تجب ہٰذہ الصدقۃ إلا علی حر مسلم غني، والغنی أن یملک نصاباً أو ما قیمتہ قیمۃ النصاب فاضلاً عن مسکنہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۵۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۰؍۳؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ