خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حجۃ وللحاج سبع حجات وعن جابر مرفوعا: من حج عن أبیہ أو أمہ فقد قضی عنہ حجتہ وکان لہ فضل عشر حجج۔ (غنیۃ الناسک ۱۸۱) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۳؍۹؍۱۴۱۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہچھوٹے لڑکے کو بیوی کی طرف سے حج بدل کیلئے ساتھ لیجانا؟ سوال(۲۲۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں نے پہلی مرتبہ حج بیت اللہ شریف کے لئے درخواست دی ہے جو منظور ہوگئی ہے، لیکن میری خواہش ہے کہ اہلیہ مرحومہ کے لئے بھی کوئی حج بدل کا انتظام ہوجائے، اس کے لئے میں نے اپنے چھوٹے لڑکے کے حج کے لئے سوچ رکھا ہے، لڑکے نے اب تک کوئی حج نہیں کیا ہے کیا میں اس کو ساتھ حج بدل کے لئے لے جاسکتا ہوں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: افضل یہ ہے کہ ایسے شخص سے حج بدل کرایا جائے جس نے پہلے سے اپنا حج کررکھا ہو، لیکن اگر ایسے شخص نے حج بدل کرلیا تو مرحوم کی طرف سے حج ادا ہوجاتا ہے، بریں بنا صورتِ مسئولہ میں اہلیہ مرحومہ کے حج بدل کے لئے چھوٹے لڑکے کو اپنے ساتھ لے جانے کی گنجائش ہے، ہاں اگر لڑکا خود مال دار اور صاحب استطاعت ہو تو اس کا حج بدل کرنا مکروہ تحریمی ہوگا۔ والأفضل للإنسان إذا أراد أن یحج رجلاً عن نفسہ أن یحج رجلاً قد حج عن نفسہٖ … وفي الکرماني: الأفضل أن یکون عالماً بطریق الحج وأفعالہ، ویکون حراً عاقلاً بالغاً … ومع ہٰذا لو أحج رجلاً لم یحج عن نفسہ حجۃ الإسلام یجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۷) ویجوز حج الصرورۃ وہو الذي لم یحج عن نفسہ و یکرہ۔ (درر الحکام / حکم الہدي ۱؍۲۶۲ الشاملۃ)