خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کہ: اور دس ذی الحجہ کی رمی کی قضا کیا گیارہ کو زوال سے پہلے کرسکتے ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:دس کی رمی کی قضاء گیارہ تاریخ کو زوال سے قبل کرسکتے ہیں، مگر تاخیر کی وجہ سے دم لازم ہوگا۔ ولو لم یرم یوم النحر … رماہ في اللیلۃ المقبلۃ ولاشی علیہ سوی الإساء ۃ إن لم یکن بعذر، ولولم یرم في اللیل رماہ في النہار ولو قبل الزوال قضاء عندہ وعلیہ الکفارۃ التأخیر۔ (غنیۃ الناسک/ باب رمي الجمار؍۱۸۲ إدارۃ القرآن کراچي) فوقت الجواز أداء من طلوع الفجر … إلی طلوع الفجر من غدہ، فإذا طلع فات وقت الأداء ولزمہ الدم والقضاء۔(غنیۃ الناسک/ باب مناسک من یوم النحر ۱۶۹ إدارۃ القرآن کراچی) في الیوم حتی لو أخرہ حتی طلوع الفجر الثاني لزمہ دم۔ (البحر الرائق ۲؍۶۰۴ زکریا، کذا في الرد المحتار للعلامۃ الشامي ۳؍۵۳۴ زکریا) آخرہ عن وقتہ: أي الممعین لہ في کل یوم فعلیہ القضاء والجزاء۔ (شامي ۳؍۵۴۲ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقرمحمد سلمان منصور پوری غفر لہ ۱۶؍ ۱۱؍ ۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہبارھویں تاریخ کی رمی کا وقت سوال(۱۴۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تیسرا مسئلہ بارہویں تاریخ کی رمی کے اوقات میں توسع کا ہے، دسویں تاریخ اور بارہویں تاریخ کو عموما حادثات ہوتے ہیں، دسویں تاریخ کو سب چاہتے ہیں کہ افضل وقت میں رمی کرلیں اسی لئے ہرسال اموات کا سلسلہ ہوتا ہے، اسی طرح بارہویں تاریخ کو ہرا یک کی خواہش ہوتی ہے