خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ولا بمال حرام، ولو حج بہ سقط عنہ الفرض لکنہ لا تقبل حجتہ، کما ورد في الحدیث، ولا تنافي بین سقوطہ وعدم قبولہ، فلا یثاب لعدم القبول، ولا یعاقب عقاب تارک الحج، کما إذا صلی في أرض غصب … والحیلۃ لمن لیس معہ إلا مال حرام أو فیہ شبہۃ أن یستدین للحج من مال حلال لیس فیہ شبہۃ ویحج بہ، ثم یقضي دینہ من مالہ، ذکر قاضي خان۔ (غنیۃ الناسک ۲۱-۲۲ إدارۃ القرآن کراچی، شامي ۳؍۴۵۳ زکریا، مجمع الأنہر ۱؍۲۶۱) إذا أراد الرجل أن یحج بمال حلال فیہ شبہۃ فإنہ یستدین للحج و یقضي دینہ من مالہ، کذا في فتاویٰ قاضي خان في المقطعات۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۰ دارإحیاء التراث العربي) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۴؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہبینک سے ملی ہوئی سودی رقم سے حج کو جانا جائز نہیں سوال(۵۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید کو بینک میں جمع کردہ روپئے سے زائد روپئے بھی دئے گئے اور وہ اس زائد روپیہ کو لے کر حج کرنا چاہتا ہے، تو کیا وہ اس زائد روپئے سے حج کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر جواز کی صورت ہے تو کیوں اور اگر عدم جواز کی صورت ہے، تو کیسے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:حج حلال مال سے کرنا چاہئے، حرام مال سے کیا گیا حج مقبول نہیں ہوتا؛ لہٰذا بینک سے ملے ہوئے سود کے روپئے سے ہرگز حج نہ کیا جائے، حدیث میں ہے کہ جو شخص حرام مال سے حج کو جاتا ہے اور سواری پر سوار ہوکر لبیک کہتا ہے، تو آسمان سے فرشتہ اسے جواب دیتا ہے کہ ’’لا لبیک لا سعدیک‘‘ (یعنی تیری لبیک غیر مقبول ہے) تیرا توشہ حرام ہے،