خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ولا إلی غني یملک قدر نصاب۔ (درمختار ۳؍۲۹۵ زکریا) ولا یعطي منہا غنیًا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۹ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۱۱؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجس کے پاس چھ لاکھ روپئے کا ذاتی مکان ہو اس کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۱۹۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مسجد کے امام صاحب کے پاس چھ سات لاکھ روپیوں کا اپنا مملوکہ مکان ہے، اور وہ کرایہ پر دیا ہے، اور وہ صاحب خود مسجد کے مکان میں رہتے ہیں، تو مذکورہ امام صاحب کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یانہیں؟ آج تک لوگ ان کو زکوٰۃ دیتے ہیں، تو ان کی زکوٰۃ ادا ہوگی یانہیں؟ ایک مؤذن صاحب ہیں ان کے پاس بھی پانچ لاکھ روپیوں کا مکان ہے جس میں وہ رہتے ہیں، اور ان کی اس کے علاوہ کوئی آمدنی نہیں ہے، لوگ ان کو بھی زکوٰۃ دیتے ہیں، تو لوگوں کی زکوٰۃ ادا ہوگی یانہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مملوکہ مکان مال نامی میں شامل نہیں ہے؛ اس لئے محض مذکورہ مکان کے مالک ہونے کی بنا پر امام یا مؤذن صاحب کو مالک نصاب قرار نہیں دیا جاسکتا، اور یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے پاس روپئے یا مال تجارت یا زیورات وغیرہ کی شکل میں نصاب کے بقدر مال ہے یانہیں؟ اگر نصاب کے بقدر اس طرح کا مال موجود ہے تو ان کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اور اگر وہ بقدر نصاب مال کے مالک نہیں ہیں، تو انہیں زکوٰۃ دینا درست ہے؛ لیکن خود ان کے لئے سوال کرنا درست نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۷۳ ڈابھیل) قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن قبیصۃ بن مخارق قال: تحملتُ حمالۃً فأتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ