خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
غیرہا وغیر العشر والخراج إلیہ، أي الذمي ولو واجباً،کنذر وکفارۃ وفطرۃ خلافاً للثاني، وبقولہ: یفتی، وتحتہ في الشامیۃ: قلت: لکن کلام الہدایۃ وغیرہا یفید ترجیح قولہما، وعلیہ المتون۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۳۰۱ زکریا، ۲؍۳۵۱ کراچی) ولا یصح دفعہا لکافر۔ (طحطاوي علی المراقي ۳۹۳) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۵؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہہندو یا شیعہ غریب کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۳۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہندو غریب کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں، یا شیعہ غریب کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان دونوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، ان کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۳۸۶-۷؍۲۵۰، احسن الفتاویٰ ۴؍۲۸۰، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۵۹) عن إبراہیم قال: لا تعط المشرکین شیئًا من الزکاۃ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / ما قالوا في الصدقۃ یعطي منہا أہل الذمۃ ۶؍۵۱۳ رقم: ۱۰۴۱۲) عن الحسن قال: لا یعطي المشرکون من الزکاۃ ولا من شيء من الکفارات۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / ما قالوا في الصدقۃ یعطي منہا أہل الذمۃ ۶؍۵۱۳ رقم: ۱۰۴۱۴) لا یجوز دفع الزکاۃ إلی ذمي۔ (تببین الحقائق / باب المصرف ۱؍۳۰۰) ولا یصح دفعہا لکافر، وقال في التنویر وشرحہ: ولا تدفع لذمي۔ (طحطاوي علی المراقي الفلاح ۳۹۳) وفي الہندیۃ : وأما أہل الذمۃ فلا یجوز صرف الزکاۃ إلیہم بالإتفاق۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / الباب السابع في المصارف ۱؍۱۸۸)