خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قالوا: الأفضل صرف الصدقۃ إلی أخواتہ ذکوراً أو إناثاً۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۶ بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۲؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہغریب بہن کو قرض کے عنوان سے بنیت زکوٰۃ رقم دینا سوال(۲۱۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید کے پاس زکوٰۃ کے پچاس ہزار روپئے ہیں، زید ان کی تملیک کرانا چاہتا ہے، جس کی یہ شکل اختیار کی ہے کہ زید کی بہن غریب ہے، اس نے زید سے پچیس ہزار روپئے ادھار مانگے، زید نے پچیس ہزار روپئے دے دئے، مگر نیت یہ کی کہ میں زکوٰۃ دے رہا ہوں، زید کی بہن نے کچھ دنوں مزدوری کرکے زید کے پچیس ہزار روپئے واپس کردئے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح تملیک صحیح ہوگئی؟ زکوٰۃ ادا ہوگئی؟ اور وہ پچیس ہزار روپئے جو زید کی بہن نے واپس کئے وہ کسی کی ملکیت کہلائیں گے؟ شرعاً جو حکم ہو واضح فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ نے اپنی غریب بہن کو پچیس ہزار روپئے قرض کے عنوان سے دئے؛ لیکن زکوٰۃ کی نیت کی، تو آپ کی زکوٰۃ ادا ہوگئی، اور مذکورہ بہن اس کی مالک بن گئی، اب آپ کے لئے وہ رقم واپس لینی جائز نہیں ہے، آپ پر لازم ہے کہ یہ رقم اسی بہن کو واپس کردیں، اور یہ کہہ دیں کہ میں نے تم کو یہ روپئے مالکانہ طور پر دئے تھے، قرض کے طور پر نہیں۔ (مستفاد: کتاب المسائل ۲؍۱۸۱) ولا یشترط علم الفقیر أنہا زکاۃ علی الأصح حتی لو أعطاہ شیئاً وسماہ ہبۃ أو قرضاً ونوی بہ الزکاۃ صحت۔ (طحطاوي علی المراقي ۷۱۵ أشرفیۃ) وشرط صحۃ أدائہا نیۃ مقارنۃ لہ أي للأداء (درمختار) وفي الشامي: