خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الإسلام فیما یرجع إلی المعاملات۔ (الفتاوی الہندیۃ ۴؍۴۰۵) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقرمحمد سلمان منصور پوری غفر لہ ۱۵؍ ۲؍ ۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہٹریول ایجنسی کا اپنے ایجنٹ کو فری حج پر بھیجنا؟ سوال(۱۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ٹریول ایجنسیاں سفر حج پر بھیجنے والوں کے لئے جگہ جگہ ایجنٹ مقرر کرتی ہیں، اور ان ایجنٹوں سے مثال کے طور پر یہ طے کرلیتی ہیں کہ اگرآپ نے دس آدمیوں کے فارم بھراکر ان کے سفر حج کی فیس ہمارے دفتر میں بھیج کر جمع کرادی، تو ہم ایک آدمی کو حج کے سفر کی سہولیات فری مہیا کرائیں گے، اس طرح اپنے مفاد خاص کی خاطر مقررہ تعداد کے لوگ حج کے فارم بھرواکر بھیجنا اور یہ کام صرف اس لئے کرنا کہ میں نے اگر ٹریول ایجنسیوں کی مقررہ تعداد پوری کردی، تو وہ ٹریول ایجنسی مجھے حج بیت اللہ کا اہم فریضہ بلا کسی میرے خرچ کے ادا کرادے گی، یا اگر مقررہ تعداد پوری نہ ہوئی، تو باقی روپیہ اینے پاس سے جمع کراکر کمیشن کے روپیہ کے ساتھ حج کی ادائیگی کرادے گی، اس میں مندرجہ ذیل امور دریافت طلب ہیں: اس طرح حج جیسے ایک اہم اور مقدس فریضہ کی ادائیگی کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس طرح کے کمیشن کی شریعتِ مقدسہ کی روشنی میں جائز وناجائز ہونے کے اعتبار سے بھی روشنی ڈالی جائے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی مقررہ عمل اور محنت پر کوئی متعین اجرت مقرر کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے، مسئولہ صورت میں جب کہ ٹریول ایجنسی اپنے ایجنٹ کو دس آدمیوں کے فارم بھروانے پر اس کے حج کے اخراجات اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کررہی ہے، تو یہ ایجنٹ کی محنت یعنی افراد کو تیار کرنے اور ان سے فارم بھروانے کا معاوضہ سمجھا جائے گا، اور اس کی اپنی ذاتی کمائی میں شامل ہوگا؛ لہٰذا اس رقم سے اس کے لئے حج کے سفر پر جانا بلاشبہ درست ہوگا۔