خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
الزوال، وہٰذا باب لا یعرف بالقیاس۔ (بدائع الصنائع / وقت الرمي ۲؍۳۲۴ نعیمیہ دیوبند) والوقت المسنون في الیومین من الزوال إلی غروب الشمس، ومن الغروب إلی طلوع الفجر وقت مکروہ، ولو لم یرم یوم النحر، أو الثاني أو الثالث رماہ في اللیلۃ المقبلۃ، ولا شيء علیہ سوی الإساء ۃ إن لم یکن بعذر۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۱-۱۸۲ ادارۃ القرآن کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقرمحمد سلمان منصور پوری غفر لہ ۲۱؍ ۱؍ ۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ۱۱-۱۲؍ذی الحجہ کو طلوعِ صبح صادق سے رمی کرنا سوال(۱۴۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا گیارہ ذی الحجہ اور بارہ ذی الحجہ کی رمی طلوع صبح صادق سے کرنے کی گنجائش ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کی رمی کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے، اس لئے ان دو دنوں میں زوال سے پہلے رمی کرنے کی گنجائش نہیں۔ وقال جابر رضي اللّٰہ عنہ: رمی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم النحر ضحی، ورمی بعد ذٰلک بعد الزوال۔ (ذکرہ البخاري تعلیقا ۱؍۲۳۵) عن وبرۃ قال: سألت ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما متی أرمي الجمار؟ قال: إذا رمی إمامک فارمہ، فأعدت علیہ المسألۃ، قال: کنا نتحین، فما زالت الشمس رمینا۔ (صحیح البخاري / باب رمي الجمار ۱؍۲۳۵ رقم: ۱۷۴۶، فتح الباري ۴؍۷۳۹ بیروت) قال الحافظ في الفتح: وفیہ دلیل علی أن السنۃ أن یرمی الجمار في غیر یوم الأضحی بعد الزوال، وبہ قال الجمہور۔ ( فتح الباري ۴؍۷۳۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت) قال العلامۃ العثماني بعد نقل حدیث وبرۃ: دلالتہ علی وجوب الرمي بعد