خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وشرط صحۃ أدائہا نیۃ مقارنۃ لہ أي للأداء، وتحتہ في الشامیۃ: قولہ نیۃ: أشار إلی أنہ لا اعتبار للتسمیۃ فلو سماہا ہبۃ أو فرضاً تجزیہ في الأصح۔ (شامي ۳؍۱۸۷ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصور پوری غفرلہ ۳؍۱۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہملازم پر قرض کی رقم کو زکوٰۃ کی نیت سے چھوڑنا؟ سوال(۲۴۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مزدور ایک کار خانہ والے مالک کے پاس کام کرتا تھا، اس نے کام کے دوران کچھ رقم قرض کے طور پر لیا تھا، اب اس مزدور کی حیثیت نہیں ہے کہ وہ رقم قرض والی ادا کرسکے، تو کیا کار خانہ دار اس رقم کو زکوٰۃ کی نیت سے چھوڑ سکتا ہے، اگر زکوٰۃ کی نیت سے نہیں چھوڑ سکتا تو حیلہ کی کوئی صورت ہو تو وضاحت فرمادیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں قرض کی رقم کو زکوٰۃ کی نیت سے چھوڑنا تو جائز نہیں ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ مالک مذکور مقروض ملازم کو زکوٰۃ کی رقم دے کر اسے مالک بنا دے اور پھر اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے، اور اس سے قرض وصول کرے۔ ولو أبرأ رب الدین المدیون بعد الحول فلا زکاۃ۔ (درمختار / باب زکاۃ المال ۳؍۲۴۰ زکریا) ولا یجزئ عن الزکاۃ دین أبرئ عنہ فقیر بنیتہا والحیلۃ أن یعطي المدیون زکاتہ ثم یأخذہا عن دینہ۔ (طحطاوي ۳۹۰) وحیلۃ الجواز أن یعطی مدیونہ الفقیر زکاتہ، ثم یأخذہا عن دینہ، ولو امتنع المدیون مدَّ یَدَہ وأخذہا لکونہ ظفر بجنس حقہ۔ (الدرالمختار مع الشامي/ کتاب