خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
لیکن موجودہ دور میں جبکہ یہ فاصلہ باقی نہیں رہا تو تردید کی بنیاد ہی ختم ہو گئی ، اور اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ فاصلہ ہے یا نہیں؟ شیخین کی تعلیل میں منی کو فناء مکہ قرار دینے کی بات کہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ فی نفسہ منی فناء مکہ میں شامل ہو سکتا ہے شرعاً یہ محال نہیں ہے۔ جب کہ کوئی اور مانع نہ پایا جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلمحکومت اگر دو الگ مقامات کو ایک شمار کر لے تو کیا قصر و اتمام کے باب میں دونوں ایک ہی شمار ہوں گے؟ سوال(۱۷۱):- ایک مقام کو حکومت کسی دوسری جگہ کے ساتھ ملحق قرار دے کر دونوں کو موضع واحد تسلیم کرلے، خواہ اس کی کوئی بھی مصلحت ہو، تو کیا قصر واتمام کے باب میں بھی دونوں موضع واحد کے حکم میں ہوجائیں گے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی جگہ کو شہر کے ساتھ ملحق کرنا دراصل ایک انتظامی معاملہ ہے اور مصالح مرسلہ میں شامل ہے، اس طرح کے معاملات میں حکم حاکم فیصل کی حیثیت رکھتا ہے، بریں بنا جب کہ سعودی حکومت کے ذمہ داران اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ منی اب مکہ معظمہ کے ایک محلہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے تو منی کو شہر مکہ کے تابع نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب ہم ذیل میں موجودہ زمانہ کے حکومت کے اہم ذمہ داران اور صاحب نظر مستند علماء کرام کی آراء پیش کرتے ہیں، جن سے یہ واضح ہوگا کہ اب حکومت سعودیہ کی نظر میں منیٰ ومزدلفہ مکہ کے تابع قرار دے دئے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:’’امیر نائف‘‘ وزیر داخلہ سعودی عرب کی رائے (۱) سعودی عرب کے سابق وزیر داخلہ اور اعلیٰ اختیاراتی حج کمیٹی کے چیئرمین امیر نائف ابن عبدالعزیزؒ نے صراحت کی ہے کہ تمام مشاعر مقدسہ اب مکہ شہر کے بیچوں بیچ آگئے ہیں، ان کے الفاظ یہ ہیں: