خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن عطاء بن یسار أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ … أو لرجل لہ مسکین فتصدق علی المسکین فأہداہا المسکین لغني۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۳۱، سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۳۲) أما الإحتیال لإبطال حق المسلم فإثم وعدوان، وقال النسفي: في الکافي عن محمد ابن الحسن قال لیس من أخلاق المؤمنین الفرار من أحکام اللّٰہ بالحیل الموصلۃ إلی إبطال الحق۔ (عمدۃ القاري ۲۴؍۱۰۹) من علیہ الزکوٰۃ لو أراد صرفہا إلیٰ بناء المسجد أوالقنطرۃ لا یجوز، فإن أراد الحیلۃ فالحیلۃ أن یتصدق بہ المتولي علی الفقراء، ثم الفقراء یدفعونہ إلی المتولي، ثم المتولي یصرف إلی ذٰلک، کذا في الذخیرۃ۔ (عالمگیري ۲؍۴۷۳) وأما الرجل الذي لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین، فأہداہا المسکین إلی غني فإنما یحل لہ؛ لأنہ ملکہا بالہدیۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۳ رقم: ۴۱۳۴ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۱۱؍۱۴۱۰ھبڑے مدارس پر قیاس کرکے مقامی بچوں کے مکتب کیلئے حیلہ کرکے زکوٰۃ لینا؟ سوال(۲۹۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل نورانی قاعدہ کی لہر چل رہی ہے، جگہ جگہ مساجد میں دینی مکاتب قائم ہورہے ہیں، جس میں صرف مقامی چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں، بیرونی طلبہ ایسے مکاتب میں بالکل نہیں ہوتے، ان مکاتب کو چلانے کے لئے زکوٰۃ کی رقمیں وصول کی جاتی ہیں، اور شرعی حیلہ کرکے مدرسین اور انتظام پر خرچ کی جاتی ہیں اور دلیل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے مدارس بھی