خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصاباً من أي مالٍ کان؛ لأن الغني الشرعي مقدر بہ۔ (ہدایۃ ۱؍۲۰۷) الدفع إلی من علیہ الدین أولیٰ من الدفع إلی الفقیر، کذا في المضمرات۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) وکرہ إعطاء فقیر نصاباً أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیوناً۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۳۵۳ کراچي، ۳؍۲۰۳ زکریا) (۲) اس صورت میں اگر امین شخص زکوٰۃ دہندہ کی جانب سے وکیل ہو تو علاج کے لئے مزید زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ وکرہ دفع قوم زکاۃ أموالہم إلی من یأخذ الزکاۃ لنفقۃ فقیر فاجتمع عند الآخذ أکثر من مائتي درہم جاز، ومن أعطی بعد ما اجتمع عند الآخذ مائتا درہم، لا یجوز إلا أن یکون الفقیر مدیوناً، ہٰذا إذا کان الآخذ أخذ الأموال بأمر الفقیر، فإن أخذ بغیر أمرہ جازت زکاۃ الکل؛ لأن الأخذ إذا لم یکن بأمر الفقیر کان الآخذ وکیلاً عن الدافعین فما اجتمع عند الآخذ یکون مال الدافعین فجازت زکاۃ الکل۔ (خانیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۶۸) (۳) اگر زید تک زکوٰۃ پہنچنے سے پہلے زید کا انتقال ہوجائے تو زکوٰۃ کا روپیہ زید کے ورثہ کو نہیں دیا جائے گا؛ بلکہ زکوٰۃ دہندہ کو واپس کرنا ہوگا۔ وہنا الوکیل إنما یستفید التصرف من المؤکل وقد أمرہ بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیرہ کما لو أوصیٰ لزید بکذا، لیس للوصي الدفع إلی غیرہ۔ (رد المحتار ۲؍۲۶۹ کراچي) (۴) صورتِ مسئولہ میں دوا دیتے وقت اگر زید کی نیت زکوٰۃ کی ہو اور مریض ضرروت مند اور غریب ہو نیز زید مریض سے کوئی معاوضہ یا نفع نہ لیتا ہو؛ بلکہ جتنی دوا کی قیمت ہو اتنی ہی زکوٰۃ کی رقم سے مہیا کرتا ہو، تو اس طرح زید کا زکوٰۃ دینا صحیح ہے۔