خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
فیقصر إن نوی الإقامۃ في أقل منہ أي في نصف شہر … فلو دخل الحاج مکۃ أیام العشر لم تصح نیتہ؛ لأنہ یخرج إلی منی وعرفہ فصار کنیۃ الإقامۃ في غیر موضعہا وبعد عودہ من منی تصح کما لو نوی مبیتہ بأحدہما أو کان أحدہما تبعا للآخر۔ وفي الشامي: أقول: ویظہر من ہذہ الحکایۃ أن نیتہ الإقامۃ لم تعمل عملہا إلا بعد رجوعہ لوجود خمسۃ عشر یوما بلا نیۃ خروج في أثنائہا، بخلاف ما قبل خروجہ إلی عرفات؛ لأنہ لما کان عازما علی الخروج قبل تمام نصف شہر لم یصر مقیما … فإن دخل أولا الموضع الذي نوی المقام فیہ نہارا لا یصیر مقیما ، وإن دخل أولا ما نوی المبیت فیہ یصیر مقیما ثم بالخروج إلی الموضع الآخر لا یصیر مسافرا؛ لأن موضع إقامۃ الرجل حیث یبیت بہ۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۶۰۶-۶۰۷ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۵؍۱۴۳۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہاگر ایک ہی گروپ میں اتمام اور قصر دونوں کے قائل ہوں تو امام کس کو بنائیں؟ سوال(۱۷۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر ایک ہی گروپ میں جانے والے کچھ افراد اتمام کے قائل اور کچھ افراد قصر کے قائل علماء کرام کے قول پر عمل کرنے والے ہوں تو ایسی صورت میں ایک خیمہ میں باہم فتنہ وفساد سے اجتناب کرنے کی غرض سے منی، مزدلفہ اور عرفات میں مقیم حجاج کرام اپنے گروپ کے مسافر امام کی اقتدا کرکے اپنی بقیہ نماز پوری کرلے تو ایسا کرنا کیسا ہے؟ کیا ان کی نماز ادا ہوجائے گی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو حضرات اتمام کے قائل ہیں ان کی نظر میں قصر