خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
أو علی قدر عضو منہ بحیث یحیط بہ … لبساً معتاداً …، فعلیہ الجزاء۔ (غنیۃ الناسک ۲۵۰، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۴۲، شامي ۳؍۴۹۹ زکریا) فإذا لبس مخیطاً یوماً کاملاً أو لیلۃ کاملۃ فدم، المراد مقدار أحدہما، فلو لبس من نصف النہار إلی نصف اللیل من غیر انفصال أو بالعکس لزمہ دم، وفي أقل من یوم ولیلۃ صدقۃ الخ، وفي أقل من ساعۃ قبضۃ من بر أو قبضتان من شعیر۔ (غنیۃ الناسک ۲۵۱، خانیۃ ۱؍۸۸، درمختار ۳؍۵۷۷ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۶؍۳؍۱۴۳۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہاحرام کی لنگی میں نیفہ لگانا یا بیلٹ وغیرہ سے باندھنا؟ سوال(۸۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: احرام کی لنگی کو اگر کوئی شخص رسی یا بیلٹ سے باندھ لے؛ تاکہ کھل کر نہ گرجائے، اور ستر محفوظ رہے یا لنگی کے اوپر نیفہ لگاکر اس میں پائجامہ کی طرح کمر بند ڈال کر باندھے، تو کیا ان دونوں صورتوں میں ایسا کرنے والے پر دم واجب ہوگا یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: احرام کی لنگی کو رسی یا بیلٹ کے ذریعہ باندھنا یا لنگی میں نیفہ سلواکر ازاربند ڈالنا مکروہ ہے، مگر اس کی وجہ سے کوئی جنایت لازم نہیں، اوراگر لنگی باندھنے کے بعد اوپر سے بیلٹ وغیرہ باندھی ہے تو اس میں کوئی کراہت نہیں، کراہت اسی وقت ہے جب کہ بیلٹ کے ذریعہ سے لنگی کوباندھا گیا ہو۔ وکذا یکرہ لہ إذا اتّزر أن یعقد علی إزارہ بحبل أو نحوہ، ومع ہٰذا إذا فعل لا شيء علیہ۔ (البحر العمیق ۲؍۷۹۴) وشد الہمیان في وسطہ۔ سواء کانت النفقۃ لہ أو لغیرہ، وسواء کان فوق الإزار أو تحتہ؛ لأنہ لم یقصد بہ حفظ الإزار، بخلاف ما إذا شد إزارہ بحبل