خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
بینک کے مقروض کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۴۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید کے رشتہ داروں میں کچھ ایسے لوگ ہیں، مثلاً بکر ہے، ان کے پاس مکان اور فیکٹری ہے، مگر یہ سب جائیداد بینک میں گروی ہے، اور جو رقم بینک سے اس کے عوض لیا تھا وہ سب نقصان ہوگیا، یہ مقروض ہے، دوسری کوئی جائیداد بھی نہیں، بکر کے پاس جو فروخت کرکے بینک کے قرض سے سبک دوش ہوجائے، اب اس حال میں زید اپنی زکوٰۃ کی رقم کو بکر کی زندگی کے گذران کے لئے اور بکر کے بچوں کی شادی بیاہ کے لئے اور بکر کی جائیداد کو بینک سے نکالنے کے لئے دے سکتا ہے یا نہیں؟ ایسے لوگوں پر استعمال کرسکتا ہے یا نہیں؟ شریعت کی نظر میں ایسے لوگوں پر زکوٰۃ استعمال کرنے پر زید کی زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بکر کے پاس اتنی مالیت ہو کہ بینک کے کل قرض کو ادا کرنے کے بعد اس کے پاس بقدر نصاب مال نقدی یا مالِ تجارت کی شکل میں موجود رہے تو اسے زکوٰۃ دینی درست نہیں ہے، اور اگر قرض کی رقم اس کی موجودہ مالیت سے زائد ہو تو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، پھر بھی قیمت نصاب (۶۱۲؍گرام ۳۶۰؍ملی گرام چاندی یا اس کی قیمت) (ایضاح المسائل ۱۰۲) کے بقدر دینا مکروہ ہوگا، بہتر ہے کہ ایک وقت میں ایک شخص کو نصاب سے کم ہی زکوٰۃ دی جائے۔ ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ۔ (درمختار ۳؍۲۸۹) ویکرہ أن یدفع إلی رجل مائتي درہم فصاعداً وإن دفعہ جاز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸ کذا في الہدایۃ ۱؍۲۰۷) الدفع للمدیون أولی منہ الفقیر، أي أولی من الدفع للفقیر الغیر المدیون لزیادۃ احتیاجہ۔ (الدرالمختار ۳؍۲۸۹ زکریا، کذا في الطحطاوي علی مراقی الفلاح ۳۹۲ کراچي)