خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ہونے کی ہے، جو رقم اسے حج کے لئے دی گئی ہے وہ امانت ہے، اس رقم کو وہ صرف حج بدل ہی میں صرف کرنے کا مجاز ہے، بلا اجازت آمر وہ رقم نہ تو وہ خود اپنے تصرف میں لاسکتا ہے اور نہ اس کے ذریعہ کسی دوسرے شخص کو حج بدل کراسکتا ہے۔البتہ اگر آمر نے ہر طرح خرچ کرنے کا کلی اختیار دے دیا ہو جیسا کہ عام معمول ہے، تو اس رقم کو مطلقاً کہیں بھی اپنی مرضی سے خرچ کرنا جائز ہے۔ عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح / باب الغضب ۲۵۵، شعب الإیمان للبیہقي ۲؍۷۶۹ قم ۵۴۹۳) ولیس للوکیل أن یؤکل فیما وکل بہٖ؛ لأنہ فوض إلیہ التصرف دون التوکیل بہٖ۔ (ہدایۃ ۳؍۱۷۶، زبدۃ المناسک ۲؍۴۵۵) لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (در مختار مع الشامي / باب الغضب، مطلب: فیما لا یجوز التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۶؍۳؍۱۴۱۲ھحج بدل کو جاتے وقت چندہ کی رسید لے جانا سوال(۲۴۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جب میرے اوپر حج فرض ہوا تھا میں اسی وقت اپنا فرض ادا کرچکا تھا، اس وقت ایک صاحب مجھے حج بدل کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں، اگر انہوں نے مجھے حج بدل کے لئے بھیج دیا تو کیا میں اس حج کے سفر میں ایک مسجد کے چندہ کی رسید بک جس کی تعمیر ودیکھ بھال کی ذمہ داری میرے اوپر ہے، ساتھ لے جاکر وہاں اپنے ملنے والوں سے مسجد کا چندہ فراہم کرسکتا ہوں؛ تاکہ یہاں آکر مسجد کی تعمیر وغیرہ میں وہ رقم صرف کروں۔ ایک شخص غریب ہے اس پر حج فرض نہیں ہوا تھا، اسی وجہ سے اس نے اپنا حج فرض ادا نہیں کیا، تو کیا وہ حج بدل کرسکتا ہے؟