خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اللّٰہم حجۃ لا ریاء فیہا ولا سمعۃ۔ (سنن ابن ماجۃ ۲۱۳) (یعنی اے اللہ میں ایسے حج کو چاہتا ہوں جس میں کوئی ریاکاری اور شہرت کا جذبہ نہ ہو) سوال میں ذکر کردہ طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ اور شریعت کے منشاء کے بالکل خلاف ہے، پھر اجتماعی طور پر خاص وقت میں مسجد میں جمع ہوکر دعا کرنا اور اس کے لئے باقاعدہ اعلان کرنا اور دعوت دینا وغیرہ بھی ایسے لوازمات میں سے ہے، جن کا کسی شرعی دلیل سے ثبوت نہیں ہے، اور اس میں عورتوں کا نکلنا اور بے پردگی ہونا صریح منکر ہے۔ فتاویٰ رحیمیہ میں مجالس الابرار سے نقل کیا گیا ہے۔ ومن منکراتہم أیضاً خروج النساء عند ذہابہم وعند مجیئہم، فالواجب علی المرأۃ قعودہا في بیتہا وعدم خروجہا من منزلہا وعلی الزوج منعہا من الخروج ولو أذن لہا کانا عاصیین۔ یعنی حاجیوں کے جاتے اور آتے وقت ان کو رخصت کرنے اور ان کے استقبال کے لئے عورتوں کا نکلنا معیوب ہے، عورت کو تو گھر ہی میں رہنا چاہئے اور شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ایسی جگہ جانے سے روکے، اگر شوہر نہ روکے گا تو عورت کے ساتھ ساتھ وہ بھی گنہگار ہوگا۔ (مجالس الابرار ۱۴۵ بحوالہ: فتاویٰ رحیمیہ ۲؍۴۸، فتاویٰ محمودیہ ۳؍۲۰۲، کتاب المسائل ۳؍۷۴-۷۲) عن أبي الأحوص قال: قال عبد اللّٰہ: المرأۃ عورۃ وأقرب ما تکون من ربہا إذا کانت في قعر بیتہا، فإذا خرجت استشرفہا الشیطان۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۲؍۳۸۴ رقم: ۷۶۹۸، سنن الترمذي رقم: ۱۱۷۳، مسند البزار ۵؍۴۲۷ رقم: ۲۰۶۱، صحیح ابن خزیمۃ ۳؍۹۳ رقم: ۱۵۸۵، صحیح ابن حبان ۱۲؍۴۱۲ رقم: ۵۵۹۸ الشاملۃ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ۱۷؍۱۱؍۱۴۱۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہسفر حج کو جاتے وقت گھر میں دوگانہ ادا کرنا؟ سوال(۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں