خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
أي دون نصاب - إلی قولہ - ومسکین من لا شيء لہ فیحتاج إلی المسئلۃ بقوتہ وما یواري بدنہ۔ (شامي ۳؍۲۸۳ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۷، فتاویٰ نظامیہ ۱؍۱۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۶۱) بھیک مانگنے والوں کے بارے میں اگر غالب گمان ہو کہ یہ زکوٰۃ کے مستحق ہیں تو دینے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر شبہ ہو تو نہ دیا جائے۔ وہٰذا إذا تحری ودفع وفي أکبر رأیہ أنہ مصرف، أما إذا شک ولم یتحري أو تحری فدفع وفي أکبر رأیہ أنہ لیس بمصرف لا یجزیہ إلا إذا علم أنہ فقیر ہو الصحیح۔ (ہدایۃ ۱؍۲۰۷، بہشتی زیور ۳؍۳۳، آپ کے مسائل اور ان کا حل ۳؍۴۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۶؍۱۴۱۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہفقیر کو دی ہوئی اشیاء میں زکوٰۃ کی نیت کرنا؟ سوال(۱۸۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے اوپر ۱۵؍سو روپئے زکوٰۃ کے واجب ہیں، اور ہم نے دیکھا کہ فلاں فلاں شخص کو فلاں فلاں چیزوں کی ضرورت ہے، ہم نے اس کو خرید کر دے دیا، اور اس کی ضرورت پوری کردی،اب ہم اس ۱۵۰۰؍روپئے کو زکوٰۃ میں حساب لگاسکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ کی دی ہوئی چیز فقیر کے پاس موجود ہو، تو اس میں اب زکوٰۃ کی نیت درست ہوجائے گی، اور اگر دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہیں تھی اور نہ اس کے پاس دی ہوئی چیز موجود ہے، تو اب اسے زکوٰۃ میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وإذا دفع إلی الفقیر بلا نیۃ ثم نواہ عن الزکوٰۃ، فإن کان المال قائماً في ید الفقیر أجزأہ وإلا فلا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۴)