خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
لحدیث البخاري لک ما نویت یا یزید! لک ما أخذت یا معن! حین دفعہا یزید إلی ولدہ معن۔ (البحر الرائق ۲؍ ۲۴۷ کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍۲؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہکمیشن طے کرکے زکوٰۃ وصول کرنا؟ سوال(۲۹۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: رمضان وغیرہ میں زکوٰۃ کی وصول یابی پر مقرر کردہ محصلین کے لئے فیصد اور کمیشن طے کرکے زکوٰۃ وصول کرنا شرعاً کیسا ہے؟ نیز ایسے مدرسوں کو جن کی زکوٰۃ وصول کرنے والے کمیشن پر کام کرتے ہوں، زکوٰۃ دی جائے تو ادا ہوگی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: کمیشن پر زکوٰۃ وصول کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ اِجارۂ مجہولہ ہے، اور جو ذمہ دارانِ مدارس زکوٰۃ کے مال سے کمیشن دیتے ہیں اور جو سفراء کمیشن لیتے ہیں، ان سے عند اﷲ مؤاخذہ ہوگا؛ کیوں کہ وہ فقیر طلبہ کے وکیل بن کر ان کی حق تلفی کرنے والے ہیں؛ تاہم زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؛ کیوں کہ انہوں نے فقراء کے وکیل کے قبضہ تک زکوٰۃ کو پہنچادیا ہے۔ (احسن الفتاوی ۶؍۴۶۷) عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن استیجار الأجیر یعني حتی یبین لہ أجرہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي / باب لا تجوز الإجارۃ حتی تکون معلومۃ ۹؍۳۹ رقم: ۱۱۸۵۵) عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: نہی عن عسب الفعل، زاد عبید اللّٰہ وعن قفیز الطحان۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۵؍۵۵۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت) الإجارۃ ہي بیع منفعۃ معلومۃ بأجرۃ معلومۃ۔ (البحر الرائق ۸؍۲ زکریا)