خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
سوی الزکاۃ؟ قالت: فتلا علي: {وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ} (تفسیر بن کثیر مکمل ۱۴۲ دار السلام ریاض) من علیہ الزکاۃ لو أراد صرفہا إلیٰ بناء المسجد أوالقنطرۃ لایجوز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۲؍۴۷۳، درمختار مع الشامي ۲؍۲۴۴ کراچی) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً کما مر، لا یصرف إلی بناء نحو مسجد - تحت قولہ - کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۳۴۴ کراچی، ۳؍۲۹۱ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۰؍۳؍۱۴۱۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہزکوٰۃ کی رقم سے طالبِ علم کی ضرورت پوری کرنا؟ سوال(۲۶۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بکر اتنا غریب ہے کہ تعلیم وغیرہ کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا ہے؛ لیکن عمرو کے حالات الحمد ﷲ اچھے ہیں، صاحب نصاب ہونے کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کرتا ہے، چاہتا ہے کہ اپنی زکوٰۃ بکر کی تعلیمی اخراجات برداشت کرکے ادا کردوں، آیا یہ زکوٰۃ کی رقم بجائے اس بکر کو سپرد کرنے کے فیس ودیگر اخراجات کی ادائیگی عمرو خود کرتا ہے، تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بکر کو مالک بنانا ضروری ہے؛ لہٰذا عمرو کو چاہئے کہ وہ اولاً زکوٰۃ کی رقم بکر کے قبضہ میں دیدے اور براہِ راست اس کی تعلیمی ضرورتوں میں خرچ نہ کرے۔ ویشترط أن یکون الصرف تملیکًا لا إباحۃ۔ (درمختار ۳؍۲۹۱ زکریا)