خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
طلبۂ مدارس کو ایک ساتھ بیٹھاکرکھانا کھلانے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم؟ سوال(۲۸۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: طلبۂ مدارس کو ایک ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلانے سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوتی ہے یا نہیں؟ اس تملیک کی شکل موجود ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر پہلے سے حیلۂ تملیک اختیار کرنے کے بعد مطبخ میں کھانا پکایا گیا ہے، تو اس کھانے کو بٹھاکر کھلانے میں حرج نہیں؛ لیکن اگر پہلے سے تملیک نہیں کی گئی ہے، تو ایسے زکوٰۃ کے کھانے کو بٹھاکر طلبہ کو کھلانے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی؛ کیوں کہ یہ کھلانا تملیک کا نہیں ہوتا ؛ بلکہ اباحۃً ہوتا ہے، اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ (فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۲۳۴) ویشترط أن یکون الصرف تملیکا لا إباحۃ، فلا یکفي فیہا الإطعام إلا بطریق التملیک۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا، کذا في مجمع الأنہر ۱؍۲۸۴ بیروت، البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۴۲۴ رشیدیۃ) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۱۲؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہمدرسہ کی ضروریات میں زکوٰۃ کا پیسہ لگانے کے لئے شرعی حیلۂ تملیک اختیار کرنا؟ سوال(۲۸۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدارسِ عربیہ میں عام طور پر صدقات کی رقوم بمقابلہ امدادی رقوم کے زیادہ آتی ہے، اور خرچ دوسرے مدات یعنی امدادی رقوم کے زیادہ ہوتے ہیں، مثلاً ملازمین مدرسین کی تنخواہیں،