خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الأفضل صرف الصدقۃ إلی أخواتہ ذکوراً أو إناثاً۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۳۳، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۶ رقم: ۴۱۳۶ زکریا) الزکاۃ یجب فیہا تملیک المال؛ لأن الإیتاء في قولہ تعالیٰ: {وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ} یقتضي التملیک۔ (البحر الرائق ۲؍۲۰۱ کوئٹہ) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً۔ (درمختار ۳؍۲۹۱ زکریا) لا یجوز الزکوٰۃ إلا إذا قبضہا الفقیر أو قبضہا من یجوز القبض لہ لولایتہ علیہ۔ (المحیط البرہاني ۳؍۳۱۴) ولا یجوز ا لزکوٰۃ إلا بقبض الفقراء أو بقبض من یکون قبضہ قبضاً لہم۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۲۰۶ رقم: ۴۱۳۶) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۳؍۱۴۳۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہغریب ر شتہ دار کو مکان خرید نے کیلئے ۷۵؍ہزار روپیہ زکوٰۃ دینا؟ سوال(۱۸۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میں اپنے ایک عزیز کے یہاں چند سال قبل ملازمت کرتا تھا اور میری مالی حالت بھی کمزور تھی، جو آمدنی ہوتی تھی وہ روز مرہ کی ضروریات ہی کے لئے کافی تھی، جس مکان میں ہم رہتے ہیں، وہ ہمارا آبائی مکان ہے، جس حصہ میں ہم رہتے ہیں وہ بہت تنگ تھا، اس کے برابر کا حصہ فروخت ہورہا تھا، ہمارے اس کے خریدنے کی گنجائش نہیں تھی، ہم نے اپنے ان عزیز سے کہا (جو ماشاء اللہ صاحب حیثیت ہیں، اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہتے ہیں) اگر ہم یہ حصہ خرید لیں تو ہمارے رہنے کی گنجائش ہوجائے گی؛ کیوںکہ ہماری ایک لڑکی مطلقہ ہے وہ بھی ہمارے ساتھ رہتی تھی، انہوں نے اس وقت ۷۵؍ہزار روپئے ہمیں دئے، اور ہم نے اس سے وہ مکان خرید لیا، اس کی رجسٹری بھی ہمارے نام ہے اس خریداری کے بعد چوںکہ وہ بہت خستہ حالت میں تھا، اس لئے تھوڑا تھوڑا ضرورت کے مطابق بنواتے رہے، اب وہ ہماری ضرورت کے مطابق ہوگیا ہے،