خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] لأن الزکوٰۃ یجب فیہا تملیک المال لأن الإیتاء في قولہ تعالیٰ: {وَآتُوْا الزَّکوٰۃَ} یقتضي التملیک۔ (تبیین الحقائق ۲؍۱۱۸، البحر الرائق ۲؍۲۰۱ کوئٹہ) ویشترط أن یکون الصرف تملیکا … لا یصرف إلی بناء نحو مسجد ولا إلی کفن میت - إلی قولہ - لعدم التملیک وہو الرکن۔ (شامي ۳؍۲۹۱-۲۹۳ زکریا، ۲؍۳۴۴ کراچی) ولا یعطی أجر الجزار منہا؛ لأنہ کبیع؛ لأن کلا منہما معاوضۃ؛ لأنہ إنما یعطی الجزار بمقابلۃ جزرہ، والبیع مکروہ، فکذا ما في معناہ۔ (درمختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا، البحر الرائق ۸؍۱۷۸، الہدایۃ، الأضحیۃ ۴؍۴۵۰) قولہ: وإلا لا، أي لأن المدفوع یکون بمنزلۃ العوض۔ (کذا في الشامي ۲؍۲۵۶) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۱۱؍۱۴۱۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہامام ومؤذن کی تنخواہوں میں زکوٰۃ کی رقم صرف کرنا؟ سوال(۳۰۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے شہر میں ماہ رمضان المبارک میں مسجدوں کے امام اور مؤذنوں کی امداد کے لئے چندہ کیا جاتا ہے، اس چندہ میں مسجد کے امام اور مؤذن کے لئے بطور امداد زکوٰۃ صدقۃ الفطر اور چرمِ قربانی کی رقم دینا کہاں تک درست ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام اور مؤذن کی تنخواہوں میں زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقومات صرف کرنا جائز نہیں ہے، ہاں کوئی امام یا مؤذن غریب اور مستحق زکوٰۃ ہو تو اسے بطور مدد زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۲۱۳)