خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
میں کہ: کیا ۱۱؍ اور ۱۲؍ ذی الحجہ کی رمی غروب آفتاب کے بعد کی جائے تو اس میں کراہت ہوگی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کی رمی غروب آفتاب کے بعد کرنا بلاعذر مکروہ ہے؛ لیکن اگر کسی عذر (مثلاً شدید ازدحام یا طبعی کمزوری وغیرہ) کی وجہ سے اس وقت رمی کی تو کوئی کراہت نہیں۔ ویکرہ للفجر أي من الغروب إلی الفجر۔ (در مختار مع الشامي ۳؍۵۳۴) والوقت المسنون في الیومین من الزوال إلی غروب الشمس، ومن الغروب إلی طلوع الفجر وقت مکروہ، ولو لم یرم یوم النحر، أو الثانی أو الثالث رماہ في اللیلۃ المقبلۃ، ولا شيء علیہ سوی الإساء ۃ إن لم یکن بعذر۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۱-۱۸۲ إدارۃ القرآن کراچی) وما بعد الغروب إلی طلوع الفجر وقت مکروہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۳۳) ولہ أوقات أربعۃ: وقت الجواز، ووقت الاستحباب، ووقت الإباحۃ، ووقت الکراہۃ … والرابع: قبل طلوع الشمس وبعد الغروب۔ (البحر الرائق ۲؍۶۰۴ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقرمحمد سلمان منصور پوری غفر لہ ۲۱؍ ۱؍ ۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہکیا ۱۲؍ذی الحجہ کی رمی غروبِ آفتاب کے بعد کرنے سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی رمی واجب ہو جائے گی؟ سوال(۱۴۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر ۱۲؍ ذی الحجہ کی رمی کے لئے غروب آفتاب کے بعد تک منی میں ٹھہرا جائے تو ۱۳؍ ذی الحجہ کی رمی لازم تو نہیں ہوگی؟