خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
فرمائی ہے؛ لیکن بہت سے جزئیات سے یہ واضح ہے کہ فقہاء نے جدہ کو ’’حل‘‘ کے اندر شمار فرمایا ہے، اور آج تک لوگوں کا عمل بھی اسی پر ہے کہ جدہ کو حل میں داخل سمجھتے ہیں، اور جدہ کے لوگ بے تکلف احرام کے بغیر مکہ معظمہ آتے جاتے ہیں، اس لئے جدہ کو اقرب المواقیت یعنی ’’قرن المنازل‘‘ کے بقدر مسافت (۸۰؍کلومیٹر) پر واقع ہونے کے اعتبار سے حل میں داخل ماننا چاہئے، جو آفاق والوں کے لئے بحکم میقات ہے۔ (مرتب) أما لو قصد موضعًا من الحل کخلیص وجدۃ حل لہ مجاوزتہ بلا إحرام۔ (درمختار ۳؍۴۲۷ بیروت، درمختار ۳؍۴۸۲ زکریا، الدر المنتقی ۱؍۳۹۳) ومما یجب التیقظ لہ سکان جدۃ الخ، وأہل الأودیۃ القریبۃ من مکۃ غالباً یأتون في سادس أو سابع ذي الحجۃ بلا إحرام، ویحرمون للحج من مکۃ فعلیہم دم المجاوزۃ لکن بعد توجہہم إلی عرفات ینبغي سقوطہ عنہم بوصولہم إلی أول الحل ملبیین۔ (غنیۃ الناسک ۵۷، ومثلہ في منحۃ الخالق ۲؍۵۵۹ زکریا، شامي ۳؍۴۸۴ زکریا) [اہل علم حضرات ’’جدہ‘‘ کے متعلق مزید مباحث کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرماسکتے ہیں: (۱) زبدۃ المناسک، مؤلفہ: مولانا شیر محمد سندھی ۵۵-۶۴۔ (۲) احسن الفتاویٰ، مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ ۵۶۶-۵۷۴۔ (۳) انوار مناسک، مؤلفہ: مولانا مفتی شبیر احمد صاحب، ۲۴۴-۲۴۷۔ (۴) فتاویٰ محمودیہ جدید مطبوعہ ڈابھیل، فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ۳۷۵-۳۷۹، اس کے حاشیہ میں بھی اچھی بحث ہے۔ (مرتب) ]اہلِ حل کی میقات : جو لوگ حل میں رہتے ہیں وہ اگر حج وعمرہ کا ارادہ کریں تو ان کے لئے پورا علاقۂ حل میقات ہے؛ البتہ اپنی جائے سکونت سے احرام باندھنا ان کے لئے افضل ہے۔ وأما میقات أہل الحل الخ، فالحل للحج والعمرۃ وإحرامہم من دویرۃ أہلہم أفضل۔ (غنیۃ الناسک ۵۵، ومثلہ في الدر المختار مع الشامي ۳؍۴۸۴ زکریا، البحر الرائق